حسین مسرّت

تم ہمارے شہر کی گلیوں موڑوں میں گم ہو جاؤ گے

اور تم ایک شناسا اجنبی کی طرح لوگوں کے مہمان بن جاؤ گے۔

ان پیچیدہ موزوں والی پاک و نجیب گلیوں کی موڑ پر

تم مہربانیوں کو پاکر خوش حال، اور مسکراہٹوں سے بھرے نظر آؤگے۔

(ح.م)

میں تمہیں ایک نشانی دوں گا کہ اگر تم راستہ تلاش کرو اور اس میں اپنا دل لگاؤ ​​تو بلاشبہ تم اس منزل تک پہنچ جاؤ گے اور یقیناً "پہلے قدم کی پہلی شرط یہ ہے کہ محبت ہو" اور اس راستے پر قائم رہو۔

جب تم الفت کے چوراہے اور رافت کی سڑک سے گذر کے دوستی کے تیراہے پر پہنچو گے، اسوقت تم ہوگے اور عشق کی گلیاں، محبت کی پہلی، دوسری، اور تیسری سے گزرتے ہوئے تم مفاہمت، امن اور یگانگت کی تینوں گلیوں کے اصل سرے تک پہنچ جاؤ گے۔ جب تھوڑا مڑو گے تو آگے، وفاق کی گلی میں، بائیں ہاتھ پہ، احسان کی بند گلی ہے۔ احسان کی اس بند گلی کے آخر میں، قربت کا بندھن، 14 معرفت کا ٹائل، انسانیت کے سبزہ زار میں ہے۔ جب آپ ایک ہی زبان کی بیٹ چند بار بجاتے ہیں تو اس گھر کا خوبصورت اور اچھے اخلاق والا مالک مکان تمہارا خیر مقدم کرتا ہے۔ پھر آپ جوش و خروش کے ساتھ "ذائقہ" کی پکار پر "دل" کی راہداری سے ہوتے ہوئے، لیوینڈر اور سنبل کے پھولوں سے بھرے صحن میں داخل ہوگے، اور خوش مچھلیوں اور سرخ اور سفید شیطانوں سے بھری حوض پر وارد ہوگے جسمیں وہ گھومتے ہیں۔ اور وہ پانی کو بھی نچاتے ہیں اور "کوشش" کے تہہ خانے سے ٹھنڈی ہوا آپ کے چہرے پر کھیلتی ہے۔ پھر آپ "عاطفہ" کے کمرے میں داخل ہو سکتے ہیں جو "عشق و محبت" کے پانچ دروازوں کے ساتھ کھلتا اور بند ہوتا ہے( اور "صفا" کے دالان تک جانے کا راستہ ہے اور "وفا" کی ہوا کا جھونکا جس میں دیار دوست کی ہوا آتی ہے۔ اب وہ گھڑی ہے کہ جب آپ اس گھر کے لوگوں کی مہمان نوازی کی آغوش میں دن گزار سکیں۔

ائے مسافر تیرے قدم مبارک ہوں کہ تونے ہمارے خانہ دل کو روشن کیا۔ آؤ مل کر قناعت کے دسترخوان پر بیٹھیں اور ایک دوسرے کو "معافی" کی روٹی پیش کریں۔

*

عرصہ دراز سے اس صحرائی سرزمین سے گزرنے والے اپنی تنگ گلیوں کے موڑ میں گھر، بازار، آبی ذخیرے اور مسجد کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ وہ گلیاں جو گرمیوں میں دھوپ اور صحرا کی تیز ہوا کے جھلسا دینے والے زخموں سے چھٹکارا پانے کی جائے اور سردیوں میں صحرا کی کڑوی سردی سے بچنے کی جگہ۔ وہ گلیاں جن کی دیواریں آسمان کی طرف ہیں اور گھر اور گلی دونوں کی حفاظت کرتی ہیں۔

صدیاں بیٹ گئیں جب سے یہ گلیاں اجنبی سواروں اور سپاہیوں کو سختی میں ڈال کر شہر کو نہان اور شہر کے لوگوں کو ان کے آسیب سے محفوظ رکھا ہے، وہ گلیاں جو مقامی لوگوں کو جوڑتی آپس میں ہیں۔ انھوں نے ایک کو خوشی اور شادی کی طرف اور دوسرے کو امن، صلح اور دوستی کی طرف بلاتی ہیں۔

یزد کی گلیاں درود و سلام سے بھری ہوئی ہیں۔ یزد خے راہگیروں کا سلام کبھی بھی بے جواب رہتا۔ ناگزیر سلام، یہاں تک کہ اجنبیوں کو بھی، اور کتنے اجنبی ان گلیوں کے اندر ملکر، ساتھ ہوگئے۔

وہ گلیاں جس کے باشندوں کی شرافت کے سامنے بزدلی اور کجروی مدھم پڑ جاتی ہے۔ اور ان باشندوں کی مردانہ مونچھیں دنیا کو خرید سکتی ہیں۔ یہ گلیاں اپنے بزرگوں کی آغوش میں سبھی کو صلح و آشتی کی طرف دعوت دیتی ہیں، اور تمام گتھیاں ان جہان دیدہ لوگوں کے با ہاتھوں سے کھلتے ہیں۔

گلی کے کارنر کا دکاندار ہر ایک کا کریڈٹ بینک ہے اور نانوائی مقامی لوگوں کو روٹی پہنچانے والا ہے۔

ان گلیوں میں، ایک نسل دوسری نسل سے جڑتی ہے اور تجربہ سیکھتی ہے، اور گلیوں کے شروع میں ہر روز معرفت و شناخت تقسیم ہوتی ہے۔ گلیاں لوگوں کی گذرگاہ نہیں بلکہ نسلوں اور اصولوں کے ملن کی جگہ ہے۔

واہ؛ کیا خوب گلیاں ہیں، شہر ہندو کی گلیاں، وہ گلیاں جن میں تازہ روٹی کی مہک، انسانیت اور معرفت کی مہک۔ اور انسان کا دل ان گلیوں کے لئے شوق سے بھر جاتا ہے۔ امید ہے کہ یہ گلیاں بارش اور زمانے کے آسیب سے محفوظ رہیں۔

*یزد، یادگار تاریخ: حسین مسرّت، ج4: 543-544.